ایجاد مسئلہ یا وقت کی ضرورت

 ایجاد مسئلہ یا وقت کی ضرورت

ِیوں تو انسان کسی نئی ایجاد یا دریافت کے بعد اپنی اُس ایجاد یا دریافت کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچتا ہے لیکن انسانی زندگی بعض اوقات ایسے مراحل پر آکھڑی ہوتی ہے جہاں اُسے اپنی ایجاد کو آگئے بڑھنے کے لئے ایک نئی ایجاد کی دریافت ضروری ہوجاتی ہے
 
یوں تو سنہ 1752ء میں بینجمن فرنکلن کی  بجلی کے استعمال دریافت مکمل کرلی گئی تھی لیکن بجلی کے
استعمال کی آفادیت کا اندازہ تقریباً ایک صدی گزرنے کے بعد اُس وقت ہوا جب سنہ 1879ء میں تھومس نے دنیا کا پہلا بلب ایجاد کیا لیکن تھامس کی اس ایجاد نے جہاں انسانی زندگی میں ایک جدت پیدا کی وہیں  ایجاد کے ساتھ کچھ نئے مسائل یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ایجاد کو برقرار رکھنے کے لئے ایک نئی ایجاد کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ میں سے بہت سے معزز قارئین اس سوچ میں مبتلا ہوں گے کہ جہاں بجلی کے استعمال اور بلب سے متعلق گفتگو ہورہی ہو وہاں ہم تھومس الیوا ایڈسن کو کیسے نظرانداز کر سکنے ہیں تو جناب ایسا بلکل بھی نہیِں ہے ہمارے بلاگز کا بنیادی مقعصد آپ کو ایسے سائنسدانوں سے آگاہ کرنا ہے جن کے بارے میں بہت کم حضرات جانتے ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہم سب یہ تو جانتے ہیں کہ بلب کی ایجاد کس نے کی لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ بجلی کے استعمال کی دریافت کس نے کی اور ہم یہ تو جانتے ہیں کہ گاڑی کس نے ایجاد کی لیکن یہ نہیں جانتے کہ سائیکل کس نے ایجاد کی اسطرح دنیا میں ایسی بہت سی ایجادات ہیں جو تاریخ کے اوراق میں کہیں کہو گئی اور اُن کو ڈھونڈ نکلنا ہی ہماری زمہ داری ہے

تو جناب اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں تھومس کی بلب کی ایجاد کے بعد جو مسئلہ درپیش آیا وہ بجلی کے ترسیل کا ایک مناسب اور موثر نظام تھا اور کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے  جس کی نتیجہ میں ایک ںیا آلہ ایجاد ہوا جسے دنیا کہ ہر کونے میں اس کی ایجاد سے لیکر آج تک عام طور پر ٹرانسفارمر کے نام سے جانا جاتا ہے جی جناب آج ہمارا موضوعِ گفتگو ٹرانسفارمر کی ایجاد ہے 

لیکن آج ہم ٹرانسفارمر کی ایجاد پر پر بات کرنے سے قبل اس بات کو جاننے کی کوشش کریں گئے آخر اس برقی آلہٰ کا استعمال ہے کیا؟




اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو ٹرانسفارمر اُس آلے کو کہتے ہیں جو بجلی کے بہاو کو ایک یا اُس سے زائد سرکٹوں میں تقسیم کرے اور بجلی کے بہاو کے تناسب میں تیزی یا کمی کی صورت میں بجلی کے بہاو کے تناسب کو مخصوص سطح پر برقرار رکھے اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اکثر اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ بارش یا آندھی کی صورت میں اکثر ہمیں والٹیج کی کمی کا سامنا رہتا ہے

 ایسی صورتِ حال میں دو میں سے کسی ایک چیز کا نقصان ضرور ہوتا ہے یا تو آپ کے گھر کے استعمال کی برقی اشیاء (ٹیلی وزن، استرِی یا فریج) خراب ہوتی ہیں یا پھر آپ کے علاقہ کا ٹرانسفارمر اس آفت کو اپنے ذمہ لیتے خود خراب ہوجاتا ہے 

یوں تو ہم ٹرانسفارمر کی اس ایجاد کو کسی ایک موجد کے سپرد نہیں کر سکتے لیکن ہم اپنے معزز قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس ایجاد کی بنیاد سنہ 1831ء میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان مائیکل فراڈے نے چند ابتدائی تجربات کی روشنی میں برقی مقناطیسی بہاو اور مقناطیسی بہاو کے درمیان تعلق کو ثابت کیا فراڈے کے اس تجربہ کو فراڈے لاء آف انڈیکشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے

سائنسدان مائیکل فراڈے

بعدازں سنہ 1836ء میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان نیکولس جوسیف کالان نے دنیا کا پہلا ابتدائی ٹرانسفارمر ایجاد کیا نیکولس نے اپنی اس ایجاد کو انڈکشن کوائل کا نام دیا نیکولس کا شمار اُس وقت کے پہلے محقیقین میں ہوتا ہے جو ابتدائی گھماو اور ثانوی گھماو کو تعلق کو سمجھ چکے تھے جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ بہتر برقی مقناطیسی بہاو کو پیدا کیا جاسکتا تھا

سائنسدان نیکولس جوسیف کالان
انڈکشن کوائل



بیٹریاں متعبادل کرنٹ مہیا کرنے کے بجائے براہِ راست کرنٹ مہیا کرتی تھیں جس کی بدولت انڈکشن کوائل برقی رابطہ لہروں پر انحصار کرتا ہے جس کی نتیجہ میں ابتدائی کرنٹ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تاکہ انڈیکشن کے بہاو میں تبدیلیاں پیدا کی جاسکیں ۔

سنہ 1876ء میں رُوس سے تعلق رکھنے والے انجینئر پیول نیکولایویچ یبلوچکوف نے انڈیکشن کوائلز پر منحصر لائتنینگ سسٹم تیار کیا پیول نے اپنے اس سسٹم کے ابتدائی گھماو کو متعبادل کرنٹ کے ذریعہ منسلک کیا اور ثانوی گھماو کو چند برقی بتیوں سے منسلک کیا پیول  کی ایجاد کی خاص بات یہ تھِی کہ اس میں منسلک 
کوائلز نے بنیادی طور پر بلکل ٹرانسفارمرز کی طرح کام کیا

انجینئر پیول نیکولایویچ یبلوچکوف
لائتنینگ سسٹم

بعدازاں سنہ 1878ء میں ہنگریا سے تعلق رکھنے والے گانز فیکٹری نے اسی طرز کے لائیٹننگ سسٹم کی تیار پر کم شروع کردیا سنہ 1883ء تک آسٹریا، ہنگری میں ایسے پچاس سسٹم نصب کردیئے گئےتھے۔

سنہ 1882ء میں فرانس سے تعلق رکھنے والے موجد لوسین گالارڈ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر جان ڈکسن گیبس نے سیکنڈری جنریٹر کے نام سے اوپن آئرن کور کے نام سے ایک آلہٰ لندن شہرمیں نمائش کے لئے پیش کیا 

لوسین گالارڈ
جان ڈکسن گیبس
  

ٹھیک دو سال بعد اس ایجاد کو اٹلی کے شہر ٹورین کی نمائش میں پیش کیا جہاں اس ایجاد کو الیکٹرک لائٹننگ سسٹم کے منصوبہ کے لئے اپنایا گیا بعدازں اس ایجاد کو امریکہ سے تعلق رکھنے والی تیارساز کمپنی ویسٹنگ ہاوس کو فروخت کردیا گیا۔

سیکنڈری جنریٹر



   سنہ 1884ء میں ہنگری میں قائم گانز ورکس سے تعلق رکھنے والے تینوں انجینئروں کرولی زپرنوسکی، اوٹو ٹائٹس بلاتھی اور میکسا  ڈیری نے یہ تعین کیا کہ اب تک تیار ہونے اوپن کور آلات مکمل طریقے سے برقی بہاو کو قابو کرنے کی  صلاحیت نہیں رکھتے ہیں

کرولی زپرنوسکی، اوٹو ٹائٹس بلاتھی اور میکسا  ڈیری


 اس تعین کے اگلے ہی سال سنہ 1885ء میں انہیں تینوں انجینئروں کی جانب سے دنیا کے پہلے باقاعدہ استعمال 
کے لائق ناول ٹرانسفارمر کے نام سے بند سرکٹس کے ساتھ دو مختلف ڈیزائن متعارف کروائے گئے 



 زیڈ بی ڈی ٹرانسفارمر

ان ٹرانسفارمروں کو بعدازں زیڈ بی ڈی ٹرانسفارمروں کے نام سے مشہور ہوئے ان ٹرانسفارمروں میں تانبے کو لوہے کی تاروں کے گرد لپیٹا گیا تھا اور لوہے ہی کے سانچے میں ہی بند کردیا گیا تھا

یہاں ہم اپنے معزز قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ زیڈ بی ڈی ہی وہ ٹرانسفارمر ہیں جو آج دنیا میں عام  استعمال کئے جاتے ہیں انہیں کور فارم اور شیل فارم کے نام سے دو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے اور انہی تینوں انجینروں نے  بجلی کے بہاو کو قابو کرنے کے اس آلہٰ کو ٹرانسفارمر کے نام سے مشہور کیا جسے اُس وقت الیکٹرومیگنیٹک فورس کے نام سے جانا جاتا تھا

اسی سال سنہ 1885ء میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر جارج ویسٹنگ ہاوس جے آر نے  لوسین اور جان کی ایجاد کو خرید لیا لیکن ایک امریکی بین الاقوامی کمپنی ایڈسن الیکٹرک لائٹ کمپنی نے امریکی حقوق کے تحت زیڈ بی ڈی ڈیزائن کی طرز پر ٹرانسفارمر تیار کرنے کا مظالبہ کیا 

ولیم اسٹینلے


لہزا ایک امریکی ماہرِ طبیعات ولیم اسٹینلے پر یہ زمہ داری عائد کی گئی کہ وہ امریکہ میں تجارتی سطح پر استعمال کے لئے ٹرانسفارمر ڈیزائن کریں  جس کہ نتیجہ میں اسٹنلے نے سنگل کور انڈیکشن کوائل سسٹم تیار کیا جسے بعدازں امریکہ میں سنہ 1886ء میِں تجارتی سطح پر تیار کیاگیا 

اسٹینلے ٹرانسفارمر

مگر ویسٹنگ ہاوس اسٹنلے کے اس ڈیزائن کو اور بہتر بنانے کا ارادہ رکھتی تھی اور ان کی اسی کوششوں کے نتیجہ میں اگلے ہی سال سنہ 1887ء میں ویسٹنگ ہاوس ، اسٹینلے اور اُس کے ساتھیوں نے ایک کم قیمت اور پہلے سے جدید ٹرانسفارمر ایجاد کیا

سنہ 1889ء میں ٹرانسفارمر کی اس ایجاد میں جدت پیدا کرنے کی  کوشش میں ایک پولش-روسی انجینئرمیخائل اوسیپووچ ڈولیو - ڈوبرووولسکی  نے جرمنی میں دنیا کا پہلا تھری فیز ٹرانسفارمر تیار کیا اور بعدازاں سنہ 1891ء میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر اور موجد نیکولا ٹیسلا نے ٹیسلا کوائل کے نام سے ایک ہائی والٹیج پیدا کرنے والا ٹرانسفارمرایجاد کیا

انجینئرمیخائل اوسیپووچ ڈولیو - ڈوبرووولسکی
تھری فیز ٹرانسفارمر


ٹرانسفارمر کی ایجاد کی تجقیق کے دوران ہمیں باخوبی اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ ٹرانسفارمر کی اس ایجاد نے بجلی کے استعمال کی دریافت کو آگے بڑھانے اور جدت بخشنے میں ایک اہم کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

      ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں اب تک کے بلاگ میں ساتھ دینے کا شکریہ - سید مرتضی حسن
   

                         

0 Comments